واسطے  حضرت  مرادِ  نیک  نام      عشق  اپنا  دے  مجھے  رب  الانعام        اپنی  الفت  سے  عطا  کر  سوز  و  ساز       اپنے  عرفاں  کے  سکھا  راز  و  نیاز      فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہر  گھڑی  درکار  ہے         فضلِ  رحمن  فضل  تیرا  ہو  تو    بیڑا  پار  ہے    

    

حضرت  محمد مراد علی خاں رحمتہ  اللہ  علیہ 

 حضرت خواجہ معین الدین حسن سنجری

رحمتہ اللہ علیہ

 

حضرت خواجہ معین الدین چشتی ۱۴ رجب ۵۳۶ ہجری کو جنوبی ایران کے علاقے سیستان کےایک دولت مند گھرانےمیں پیدا ہوئےآپ نسلی اعتبار سےصحیح النسب سید تھےآپ کا شجرہ عالیہ بارہ واسطوں سےامیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سےجاملتا ہے۔ آپ کےوالد گرامی خواجہ غیاث الدین حسین بہت دولت مند تاجر اور بااثر تھے۔ دولت کی فراوانی کےباوجود حضرت معین الدین چشتی بچپن سےہی بہت قناعت پسند تھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

والد گرامی کی وفات پر ایک باغ اور ایک آٹا پیسنےوالی چکی آپ کو ورثےمیں ملی۔ والدین کی جدائی کےبعد باغبانی کا پیشہ آپ نےاختیار کیا۔ درختوں کو خود پانی دیتے۔زمین کو ہموار کرتےپودوں کی دیکھ بھال کرتے۔ حتیٰ کہ منڈی میں جا کر خود ہی پھل بھی فروخت کرتے ۔ ایک دن حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنےباغ میں درختوں کو پانی دےرہےتھےکہ ادھر سےمشہور بزرگ حضرت ابراہیم قندوزی رحمتہ اللہ علیہ  کاگزر ہوا۔ آپ نےبزرگ کو دیکھا تو دوڑتےہوئےگئےاور حضرت ابراہیم قندوزی رحمتہ اللہ علیہ  کےہاتھوں کو بوسہ دیا۔پھر چند لمحوں بعد انگوروں سےبھرےہوئےدو طباق لئےآپ حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ  کےسامنےرکھ دئیےاور خود دست بستہ کھڑےہو گئے۔

حضرت ابراہیم قندوزی رحمتہ اللہ علیہ  نےاپنےپیراہن میں ہاتھ ڈال کر جیب سےروٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر حضرت خواجہ کی طرف بڑھا دیا اور فرمایا وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔

یہ کہہ کر خشک روٹی کاوہ ٹکڑا حضرت معین الدین چشتی کےمنہ میں ڈال دیا۔ پھر باغ سےنکل کر اپنی منزل کی جانب تیزی سےچل دیئے۔حضرت ابراہیم رحمتہ اللہ علیہ  کی دی ہوئی روٹی کےٹکڑےکا حلق سےنیچےاترنا ہی تھا کہ حضرت معین الدین چشتی کی دنیا ہی بدل گئی۔ آپ کو یوں محسوس ہونےلگا جیسےکائنات کی ہر شےفضول ہی۔ دوسرےہی دن آپ نےاپنی چکی اور باغ فروخت کر دیا اور اس سےحاصل ہونےوالی رقم غریبوں اورمحتاجوں میں بانٹ دی۔ بعدازاں آپ سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹانےکےبعد تحصیل علم کیلئےخراساں کو خیرباد کہہ کر سمرقند بخارا کا رخ کیا جو اس وقت علوم وفنون کےاہم مراکز تصور کئےجاتےتھے۔ یہاں پہلےآپ نےقرآن پاک حفظ کیا۔ پھر تفسیر‘ فقہ‘ حدیث اور دوسرےعلوم ظاہری میں مہارت حاصل کی۔ علوم ظاہری کی تکمیل کےبعد آپ نےمرشد کامل کی تلاش میں عراق کا رخ کیا۔

راستےمیں اپنےزمانے کےمشہور بزرگ حضرت خواجہ عثمان ہارونی سکونت پذیر تھے۔ حضرت خواجہ کچھ دن تک ایک عام طالب علم کی حیثیت سےحضرت عثمان ہارونی کی خدمت میں حاضر ہوتےرہے۔ مگر شیخ نےکوئی توجہ نہ دی۔پھر ایک دن حضرت عثمان ہرونی نےآپ کو اپنےحلقہ ارادت میں شامل کر لیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اپنےمرشد کی خدمت میں تقریباً اڑھائی سال رہے۔ آپ پیرومرشد کی خدمت کیلئےساری ساری رات جاگتےرہتےکہ مرشد کو کسی چیز کی ضرورت نہ پڑ جائے۔

پھر ایک دن حضرت خواجہ کو مرشد پاک نےسینےسےلگا کر ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دیئےاور دعا فرمائی۔ ”اےخدائےذوالجلال!معین الدین کو قبول فرما لے۔ اس نے بےسروسامانی کےباوجود مجھےنہیں چھوڑا تو بھی اسےزمین پرتنہا نہ چھوڑ۔ ابھی دعا کےالفاظ مکمل بھی نہ ہوپائےتھےکہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی بارش نور میں نہا گئے۔ ایک تیز شعاع دل و دماغ کو روشن کرتی چلی گئی۔ اور آپ کی آنکھوں کےسامنےسےتمام حجابات اٹھ گئے۔

حضرت عثمان ہارونی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو لےکر مکہ معظمہ حاضر ہوئی۔ خانہ کعبہ کا طواف کرنےکےبعد آپ نےبلند آواز میں فرمایا۔ الٰہی!معین الدین حاضر ہےاپنےاس عاجز بندےکو شرف قبولیت عطا فرما۔ جواب میں ندائےغیبی سنائی دی۔ ”ہم نےاسےقبول کیا۔ بےشک! یہ معین الدین ہے۔

پھر مکہ معظمہ کےبعد مدینہ منورہ تشریف لےگے۔ پھر جیسےہی سرورِکائنات کی قربت حاصل ہوئی حضرت عثمان ہرونی نےخواجہ معین الدین چشتی کو حکم دیا۔”معین الدین! آقائےکائنات کےحضور اسلام پیش کرو۔

حضرت خواجہ معین الدین چشتی نےگداز قلب کےساتھ لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔ ”السلام علیکم یا سید المرسلین۔“ وہاں موجود تمام لوگوں نےسنا۔ روضہ رسول ا سےجواب آیا۔ ”وعلیکم السلام یا سلطان الہند“۔اس کےبعد مرشد نےحضرت خواجہ کومبارکباد دیتےہوئےفرمایا معین الدین! تم خوش نصیب ہو کہ تمہیں دونوں مقامات پر قبولیت کی سند عطا ہوئی آئندہ بت خانہ ہند تمہاری سرگرمیوں کامرکز ہو گا۔ اگرچہ وہاں کفر کی گہری تاریکی پھیلی ہوئی ہےلیکن تم وہاں اسلام کی شمع روشن کرنے میں کامیاب ہو جائو گے۔ اس وسیع و عریض ملک میں صرف تم ہی سلطان کہلائو گےجسےدربار رسالت  ا سےتاج سلطانی عطا ہوا ہےوہ ہندوستان کےتمام بادشاہوں پر غالب آکر رہےگا۔

پھر پیرومرشد کی اجازت سےآپ تنہا حجاز مقدس پہنچے۔ حج کی سعادت حاصل کی روضہ رسول پر حاضری دینےکےساتھ ساتھ کئی ممالک کا سفر اختیار کیا۔ سفر بغداد حضرت معین الدین چشتی اڑھائی ماہ تک حضرت شیخ نجم الدین کبریٰکےہاں قیام پذیر رہےاور ایک عظیم صوفی کی محبتوں سےفیض یاب ہوئے۔

اس کےبعد حضرت معین الدین چشتی بغداد میں حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کچھ عرصہ یہاں قیام کیا۔ پھر آپ تبریز تشریف لےگئےاوروہاں حضرت خواجہ ابو سعید تبریزی سےفیض حاصل کیا۔ حضرت تبریزی کو تصوف کی دنیا میں ہمہ گیر شہرت حاصل ہی۔ چند دن یہاں گزارنےکےبعد آپ اصفحان تشریف لےگئی۔ وہاں مشہور بزرگ حضرت شیخ محمود اصفحانی کی محبت سےفیض یاب ہوئی۔

اس کے بعد آپ سبزوار چلے گئے۔سبزوار میں آپ کی آمد کو چند دن ہی گزرےتھےکہ مقامی باشندوں کی بہت بڑی تعداد یہاں کےگورنر یادگار محمد کےخلاف درخواست لےکرآپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ لوگوں نےبتایا کہ مقامی گورنر کےجابرانہ روئیےسےتنگ آکر لوگ قبروں میں اتر گئےہیں لیکن حکومتی ظلم و زیادتی کا طوفان تھمنےکا نام نہیں لےرہا۔

دوسرےدن آپ حضرت خواجہ معین الدین چشتی گورنر یادگار محمد کےدربار میں ۔کسی اجازت کےبغیر محل کےدروازےمیں داخل ہو گئے۔ گورنر کےدربار میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی بارعب آواز گونجی ”میں یہاں اس لئےنہیں آیا کہ تو مجھے بندگان خدا کےخون میں ڈوبی ہوئی چند روٹیوں کی بھیک دےدےیامخلوق خدا کےجسموں کو برہنہ کر کےچند گز ریشمی میرےحوالےکر دے۔ میں تو اس لئےآیا ہوں کہ حجت تمام ہو جائے۔ اس سےپہلے کہ تیرےاقتدار کو زمین نگل لے‘ حق کی نافرمانیوں سےبازآجا تو جن پر ستم ڈھا رہاہے۔ انہیں ان کی ماؤں نےآزاد پیدا کیا۔ بساط ہستی پر تیری حیثیت ہی کیاہے؟ تجھ سےپہلےبڑےبڑےستمگریہاں اپنی طاقت آزما چکےہیں۔ انہیں تلاش کر کےوہ کہاں سےآئےتھےاور کدھر گئے؟

گورنر سبزوار کےدربار پر کسی قبرستان سا گمان ہو رہا تھا۔ حاضرین مردوں کی طرح ساکت تھےاور یادرگار محمد اپنی زرگناہ کرسی سےاتر کر نیچےآنا چاہتا تھا مگر اس کا جسم مفلوج ہو کر رہ گیا تھاحضرت خواجہ معین چشتی جابر حاکم کےسامنےکلمات حق ادا کر کےواپس جاچکےتھےلیکن آپ کےالفاظ کی گونج ابھی تک باقی تھی۔ آپ کی باتوں سےظالم گورنر پر اس قدر اثر ہوا کہ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔

کچھ دن بعد حضرت خواجہ معین الدین چشتی سبزوار سے”حصارِ شادماں“ تشریف لائےتو یادگار محمد بھی آپ کےہمراہ تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ اپنی باقی ماندہ عمر پیرومرشد کی خدمت میں بسر کری۔ مگر پیرومرشد نےآپ کو ”حصارِ شادماں“ میں لوگوں کی رشدو ہدایت کیلئےمقرر کر دیا۔”حصارِ شادماں“ سےرخصت ہو کر حضرت خواجہ معین الدین چشتی بلخ تشریف لائےاور حضرت شیخ احمد خضرویہ کی خانقاہ پر قیام کیا۔ یہاں حکیم ضیاءالدین بلخی نےآپ کےہاتھ پر بیعت کی۔ بلخ کےبعد کچھ عرصےتک آپ نےغزنی میں قیام فرمایا۔

یہاں ایک رات آپ نےخواب میں سرورِ کائنات کو دیکھا۔ رسول اکرم انےحضرت خواجہ معین الدین چشتی کو اپنی دعائوں سےسرفراز کیا اور ہندوستان جانےکی ہدایت فرمائی۔ آقائے نامدار اکی اجازت پاتےہی آپ ۵۸۶ ہجری کو لاہور تشریف لائےاور سب سےپہلےحضرت داتا گنج بخش کا فیض حاصل کرنےکےبعد ملتان چلےگئی۔ یہاں آپ نےپانچ سال تک قیام کیا اور سنسکرت زبان سیکھی۔ چونکہ آپ ہندو قوم کےسامنےاسلامی تعلیمات پیش کرنےوالےتھےاس لیےمقامی لوگوں کی زبان جاننا آپ کیلئےاشد ضروری تھا۔ ملتان کےبعد دہلی قیام پذیر ہوئی۔ یہاں سب سےلاڈلےمرید حضرت قطب الدین بختیار کاکی کو چھوڑ کر خود اجمیر شریف کےخطہ زمین کو تبلیغ کیلئےمستقل طور پر منتخب فرمایا۔

حضرت معین الدین چشتی کا ایک خادم آپ کےوضو کیلئےاناساگر تالاب سےپانی لینےکیلئےگیا تو وہاں خلاف معمول راجہ کےسپاہی تعینات نظر آئےجب خادم نےپانی سےگھڑا بھرنا چاہا تو راجپوت سپاہیوں نےسختی سےمنع کر دیا اور کہا کہ اب تم اچھوت ہو تالاب کےپانی کو گندہ مت کرو۔ ۔ خادم نےآکر جب آپ کو سارا ماجرا سنایا تو آپ نےفرمایا کہ راجپوت سپاہیوں سےکہو کہ اس مرتبہ ایک گھڑا پانی لےلینےدو پھر ہم اپنا کوئی اور انتظام کرلیں گے۔ راجپوت سپاہیوں نےتمسخر اڑاتےہوئےکہا کہ آج گھڑا بھر لو اس کےبعد تمہیں یہاں سےپانی لینےکی اجازت نہیں ہو گی۔ چنانچہ خادم نےمرشد کےحکم کےمطابق وہ گھڑا بھر لیا۔راجپوت سپاہیوں کےساتھ ساتھ مسلمان خادم پر بھی حیرتوں کےپہاڑ ٹوٹ گئےکہ اناساگر تالاب کا سارا پانی ایک چھوٹےسےبرتن میں سمٹ آیا تھا۔

چند معززین اناساگر تالاب کی سابقہ پوزیشن بحال کرنےکی استدعا لےکر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئےاور عرض کی کہ اگرتالاب کا پانی اسی طرح خشک رہا تو بہت سارےانسان پانی کےبغیر مر جائیں گے۔ آپ نےاپنےخادم کو حکم دیا کہ ”برتن کا پانی تالاب میں واپس ڈال دیا جائے۔ جب گھڑےکا پانی آپ کےحکم پرتالاب میں ڈالا گیا تولوگ دیکھ کر حیران رہ گئےکہ تالاب ایک بارپھر پانی سےلبالب بھرا ہوا ہے

راجپوتوں کےنزدیک یہ جادوگری کا ایک عظیم الشان مظاہرہ تھا۔ پرتھوی راج شادی جادوگر کو اپنےدربار میں طلب کیا اور اسےحکم دیا کہ اپنےجادو کی بےپناہ طاقت سےدیوتائوں کی بستی کو مسلمانوں کےوجود سےپاک کر دے۔

شادی جادوگر اپنےمنتر پڑھتا ہوا آگےبڑھ رہا تھا اس کی آنکھیں آگ برسا رہی تھیں منہ سےبھڑکتےشعلےنکل رہےتھے۔ یہ ایک خوفناک منظر تھا۔ وہ بلند آواز میں یہ کہہ رہا تھا کہ مسلمان سن لیں کہ ان کی موت کا وقت قریب آچکا ہی۔ کیونکہ میری شکتی دیوتائوں کےدشمنوں کو ہلاک کر ڈالےگی۔ یہ کہہ کر اس نےابھی تھوڑا ہی فاصلہ طےکیا تھا کہ اس کی زبان بھی بند ہو گئی۔ اچانک اس کی زبان سےرحیم رحیم کےالفاظ نکلنےلگی۔

شادی جادوگر کا جنون بڑھتا جارہاتھا۔ حضرت معین الدین چشتی نےاس بگڑتی صورتحال میں خادم کےہاتھ پانی کا ایک پیالہ بھر کر بھیجا جیسےہی شادی جادوگر نےپیالےکا پانی پیا تو کفر کی ساری تاریکیاں دل و دماغ سےجاتی رہیں اور  وہ  بڑےعقیدت مندانہ انداز میں حضرت خواجہ کےقدموں میں گر گیا۔ اس طرح خداپرستوں کی صف میں ایک اور کلمہ گو کا اضافہ ہو گیا۔

سیر الاقطاب کے مولف لکھتے ہیں کہ جس دن آپ  اس ادر فانی سے رخصت ہوئے اس دن آپ نے نماز عشا کے بعد اپنے حجرے کا دروازہ بند کر دیا اور اپنے خاص احباب کو بھی اندر آنے سے روک دیا۔حجرے کے دروازے پر بیٹھنے والے ساری رات آنے جانے والوں کے قدموں کی آوازیں  سنتے رہے۔انہوں نے سوچا خواجہ رحمتہ اللہ علیہ  وجد میں  ہیں مگر علی الصبح آوازیں رک گئیں۔نماز کا وقت ہو گیا تھا اس لیے دروازے پر دستک دی ،آوازیں دی گئیں مگر اندر سے کوئی جواب  نہ آیا۔دروازہ کھولا گیا  تو دیکھا کہ خواجہ  رحمتہ اللہ علیہ  اس دار فانی سے تشریف لے جا چکے ہیں۔اس روز  رجب المرجب کی ۶ تاریخ  اور سن ۶۳۳ ہجری تھا۔آپ کو اجمیر میں سپرد خاک کیا گیا۔